پردہ اور اسکی افادیت پر اک عرصہ دراز سے ذھن میں تھا کہ اس کو کچھ ایسے مختصر انداز میں اپنے ہی لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ اس کی واضع حقیقت لوگوں کے سامنے آجائے قران اور سنت کی روشنی میں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی کی کتاب قرانی تعلیمات نے اس کو بہت آسان کردیا اسی کتاب کی رہبری میں اس مضمون کو حتی الامکان تکمیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اللہ پاک کی مدد کے ساتھ ۔ اس کوشش کو اللہ پاک عوام الناس کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مددگار ثابت ہو۔
قرآن کے نزدیک انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ اسکا جوہر اخلاق و عصمت ہے۔ وہ اس کی حفاظت پر انتہائی زور دیتا ہے اور ہرگز برداشت نہیں کرتا کہ اس آبگینے کو ٹھیس لگے۔
قرآن برائی کی قوتوں کو دبانے’ شہوانی خواہشات کو قابو میں رکھنے’ غلط رجحانات کو روکنے اور پاکیزہ جذبات کو پروان چڑھانے کے لئے اس نے جو روشن اصول اور موثر تدبیریں بتائی ہیں ان سے بہتر اصولوں اور تدبیروں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
زنا اور بے عصمتی کو ایک بدترین اخلاقی’ معاشرتی اور قانونی جرم قرار دیتا ہے اور اس کے لئے انتہائی عبرتناک اور لرزہ خیز سزا تجویز کرکے اس دروازہ کو بند کرنا چاہتا ہے۔
۔وہ مرد و عورت دونوں صنفوں کے لئے الگ الگ میدان عمل تجویز کرتا ہے دونوں کے آزادانہ اختلاط کو سختی کے ساتھ روکتا ہے وہ پردہ کو فرض قرار دیتا ہے۔ اس کو ایمان و اسلام کا صریح تقاضا بتاتا ہے۔
سورہ نور جس میں پردہ کے تکمیلی احکام بیان کئے گئے ہیں۔
Holy Quran 24:1
سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو
یہ احکام اور ہدایتیں ہم نے نازل کی ہیں کسی انسانی فکر کی پیداوار نہیں ہیں اصلاح معاشرہ کے یہ قوانین اور پردے کے یہ احکام محض مشورے یا سفارشات نہیں ہیں کہ تمہارا جی چاہے تو مانو’ جی نہ چاہے تو نہ مانو۔ بلکہ یہ تو انسانی تمدن کی بقاء و ترقی اور صلاح و فلاح کے لئے وہ فرض اور قطعی احکام ہیں جن کا ماننا ہر مسلمان پر لازم ہے ‘ اگر وہ واقعی مسلمان ہے اور اس سے انکار وہی کرسکتا ہے جس میں قرآن سے انکار کی ناپاک جرآت ہو۔
واذا سالتموھن متا عا فاسئلوھن من وراء حجاب ذالکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن (الاحزاب ۵۳ )
اور جب تم ازواج مطہرات سے کچھ مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو پردے کا یہ طریقہ تمھارے اور ان کے دلوں کو برے خیالات سے پاک رکھنے کے لئے انتہائی مناسب طریقہ ہے۔
یہ آیت حجاب کہلاتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کو پردہ کا حکم بھی دیا گیا ہے اور پردہ کی حکمت اور مصلحت بھی سمجھائی گئی ہے۔
پردہ کا یہ طریقہ جو مسلم معاشرہ میں رائج کیا گیا اس کی حکمت و مصلحت بتاتے ہوئے قران کہتا ہے ذالکم اطہر لقلو بکم و قلوبھن۔
تمھارے اور ان عورتوں کے دلوں کی پاکی کے لئے یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے۔
خدائے علیم و حکیم کے اس صاف اور صریح حکم کے بعد جو لوگ عورت و مرد کی مخلوط تعلیم’ مخلوط مجالس’ آزادانہ میل جول اور بے با کا نہ دید پر بیجا اصرار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک دونوں صنفوں کے آزادانہ اختلاط سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں آتا ‘ وہ دراصل خداکے علم و حکمت کو جھٹلاتے ہیں۔ قران سے ہٹ کر سوچنا اپنے ایمان سے کھیلنا ہے۔
وقرن فی بیوتکن۔(احزاب ۳۳ ) اپنے گھروں میں چین سے بیٹھی رہو۔
نبیﷺ کا ارشاد ہے عورت تو سراپا پردہ ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو اسے شیطان گھورتا ہے اور وہ خدا کی رحمت سے قریب تر اسی وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر میں ہو۔
قرآن کے اس صاف اور صریح حکم کے ہوتے کوئی مسلمان کیسے جرات کر سکتا ہے کہ وہ عورت کو گھر کی چاردیواری سے باہر نکالے اور اصرار کرے کہ عورتیں گھر سے باہر رہ کر سوشل کاموں اور پبلک سرگرمیوں میں حصہ لیں’ کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ ملجل کر تعلیم پائیں اور کارخانوں’ دفتروں اور حکومت کے ایوانوں میں مردوں کے دوش بدوش کام کریں۔
قرآنی احکام کے خلاف یہ بے جا جسارت صرف وہی کرسکتا ہے جو یا تو سرے سے خدا کی کتاب کا منکر ہے یا منافق جو قرآن کا نام لے کر اپنے تعیشات کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے قرآنی دین کی عمارت کو ڈھانے کی نا پاک کوشش کرتا ہے۔
Holy Quran 33:59
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔
قرآن کا منشا یہ ہے کہ شریف عورتیں جب گھر سے نکلیں تو اپنی حفاظت کا پوری طرح اہتمام کرلیا کریں کہ ہوسناک نگاہیں ان کے تعاقب کا تصور بھی نہ کرسکیں۔ عہد صحابہ رض سے لیکر بعد تک کے تمام بڑے بڑے مفسرین نے آیت کا یہی مفہوم مراد لیا ہے اور چھرے کا چھپانا ضروری قرار دیا ہے۔
حضرت ابن عباس رض۔ محمد ابن سیرین رح۔ حضرت عبید سلمانی رح۔ علامہ زمخشری۔ علامہ عبداللہ ابن احمد نسفی رح۔ حضرت ابن جریر رح۔
قرآن کے الفاظ اور مفسرین کی یہ تشریحات صاف صاف بتاتی ہیں کہ چہرہ کا پردہ فرض ہے۔ دور رسالت میں جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج تھا اس میں چہرہ کا پردہ لازمی تھا۔
کسی جنگ میں ایک خاتون ام خلاد رض۔ کے لڑکے شہید ہو گئے تھے وہ ان کے بارے میں معلومات کرنے کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس دل ہلادینے والے حادثے کے باوجود ان کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی لوگوں نے حیرت سے پوچھا’ بی بی! اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے! خاتون نے نہایت اطمینان کے ساتھ جواب دیا ہاں میں نے بیٹا کھویا ہے اپنی حیا نہیں کھوئی ہے
حضرت عائشہ رض۔ واقعہ افک کے وقت جب صفوان ابن معطل رض نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو حضرت عائشہ رض۔ کی آنکھ کھل گئی اور آپ اپنی چادر سے اپنا منہ چھپا لیا۔
ولاتبرجن تبرج الجاھلیتہ الاولی۔(احزاب ۳۳ )اور بناو سنگار نہ دکھاتی پھرو جس طرح پہلے جاہلیت کے دور میں اپنے حسن و سنگارکی نمائش کرتی تھیں۔
یہ کہ عورتوں کا بن ٹھن کر باہر نکلنا’ چست اور عریاں لباس پہن کر اپنے جسموں کی نمائش کرنا’ چم چم کرتے زیوروں میں دلنوازی کی اداوں کے ساتھ پھرنا ‘ اور پوڈروں اور غازوں سے پری پیکر بن کر مردوں کو دعوت نظارہ دینا وہ بدترین برائیاں ہیں جن میں لوگ اسلام سے پہلے دورجاہلیت میں مبتلا تھے۔
Holy Quran 33:32
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو
غیرمردوں سے بلا ضرورت بات چیت کرنا لہجہ میں گھلاوٹ اور آواز میں دانستہ لگاوٹ اور شیرنی پیدا کرنا اور غیرمردوں کے لئے غلط توقعات وابستہ کرنے کا موقع فراہم کرنا’ ان بدکار اور آبروباختہ عورتوں کا کام ہے جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں اور جو شرم و حیا کی چادریں پھاڑ کر ننگی ہوچکی ہوں۔ شریف اور خدا ترس خواتین کبھی بلا ضرورت غیر مردوں کو اپنی آواز نہیں سناتیں۔ نبیﷺ نے پسند نہیں فرمایا ہے کہ عورت کی آواز بلا ضرورت غیرمرد کو سنائی جائے۔ اسی لئے آپﷺ نے عورت کو اذان دینے کی ممانعت فرمائی
ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن (النور ۳۱)۔
اور اپنے پاوں زمین پر اس طرح مارتی ہوئی نہ چلاکریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت (زیوروں کی جھنکار سے) لوگوں کو معلوم ہوجائے۔
نبیﷺ نے اس حکم کو صرف زیوروں کی دلفریب جھنکار تک ہی محدود نہیں رکھا ہے ‘ بلکہ آپﷺ نے فرمایا جو عورت خوشبولگاکر راستے سے گزرے کہ لوگ اس کی خوشبو سے لذت لیں تو وہ ایسی اور ایسی ہے ابوموسی رض۔ کہتے ہیں آپﷺ نے ایسی عورت کے لئے بڑےہی سخت الفاظ استعمال فرمائے۔
حضرت ابوہریرہ رض۔ نے فرمایا میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم ﷺ سے سنا ہے جو عورت مسجد میں خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ گھر جاکر جنابت کا غسل نہ کرلے۔
وقل للمومنت یغضضن من ابصارھن۔(النور ۳۱)
اور مومن عورتوں سے کہیئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
نظر کی آوارگی انتہائی فتنہ خیز ہوتی ہے۔ نبیﷺ نے دیدہ بازی کو زنا سے تعبیر فرمایا ہے۔
نبیﷺ کا ارشاد ہے کوئی مرد کسی مرد کے سترکو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔
ویحفظن فروجھن۔(النور ۳۱) اور اپنے ستر کی حفاظت کرو۔
ایک موقع پر تو آپﷺ نے عورتوں کو سخت وعید سنائی ہے آپﷺ نے فرمایا ‘ وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں دوسروں کو رجھاتی پھرتی ہیں اور خود بھی دوسروں پر ریجھتی ہیں ‘ ناز سے لچکے کھاتی اور گردن کو بل دیتی چلتی ہیں وہ نہ جنت میں داخل ہونگی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی۔
ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا۔ (النور ۳۱)۔
اور اپنے بناو سنگار کو ظاہر نہ ہونے دو ہاں جو (تمہارے ارادے کے بغیر خود بخود)ظاہر ہوجائے۔
قرآن ہرگز برداشت نہیں کرتا کہ کوئی مومنہ بناو سنگار کرکے مردوں کو عام دعوت نظارہ دے اور ان سے دادحسن لے۔
ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن۔(النور ۳۱)۔
اوراپنے سینوں پر دوپٹوں کے آنچل ڈالے رہیں۔
دوپٹے اوڑھے رہا کریں ‘ اور سینوں پر آنچل ڈالے رہیں ‘ تاکہ سرکے بال ‘ کان اور گلے کے زیورات اور سینوں کا ابھار ظاہر نہ ہونے پائے جسم کے یہ حصے خصوصی طور پر صنف مخالف کے لئے انتہائی کشش رکھتے ہیں اور ان کے چھپانے میں بے احتیاطی سے فتنے اٹھنے کے اندیشے زیادہ ہیں۔ دوپٹہ کو بعض خواتین گلے کا ہار بناکر شرم و حیا کا مزاق اڑاتی ہیں۔
غیر متبرجت بزینت۔(النور ۶۰ )۔ بشرطیکہ وہ اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔
چادر اتارنے کی اجازت ان عمر رسیدہ عورتیں کو نہیں جن میں ابھی نمائش حسن و جمال کا جذبہ باقی ہے تو پھر وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتیں۔
نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کسی مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن وجمال پر پڑے اور وہ نظر ہٹالے تو اللہ تعالی اس کی عبادتوں میں لذت پیدا فرمادیتا ہے۔(مسند احمد)۔
دراصل نظر کی آوارگی تمام بےحیائیوں اور بداخلاقیوں کا سرچشمہ ہے اس لیئے قران نے تمام مسلمان مرد و عورت کو یہ اصولی ہدایت دی کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔ اور نظر کی آوارگی سے بچے رہو۔
ویحفظوا فروجھم ذالک ازکی لھم اناللہ خبیر بما یصنعون۔(النور ۳۰)
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ پاکبازی کی بات ہے جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ تعالی اس سے پوری طرح واقف ہے۔
شرم و حیا اور پاکبازی کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی اپنے ستر کی ہر طرح حفاظت کرے برہنگی اور عریانی سے پرہیز کرے اور کوئی ایسی بے احتیاطی نہ کرے جو جنسی آوارگی کی طرف لے جاسکتی ہو۔ قرآن نے مومن مرد اور عورت کی یہ بنیادی صفت بتائی ہے کہ وہ برہنگی اور عریانی اور آزاد شہوت رانی سے اپنے ستر کو محفوظ رکھتے ہیں۔
والحفظین فروجھم والحفظت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعداللہ لہم مغفرة واجرا عظیما۔ (الاحزاب ۳۵)۔
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لئے اللہ نے بخشش اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔
آوالطفل الذین لم یظھروا علی عورات النساء۔ (
یا ان لڑکوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔
خواتین صرف انہی لڑکوں کے سامنے زینت و زیبائش کے ساتھ آسکتی ہیں جن کی عمر دس بارہ برس سے زیادہ نہ ہو۔ اس سے زیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ بالغ نہ ہوں لیکن ان میں جنسی احساسات بیدار ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے معاملہ میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔
میں نے اختصار سے کام لیا ہے تفصیل کے لحاظ سے اس پردہ کے عنوان پر مولانا مودودی کی کتاب پردہ بہتر اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔