تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 51
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّٰهَ رَبِّىۡ وَرَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے“۔48
تفسیر:
سورة اٰلِ عِمْرٰن 48
اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیا (علیہم السلام) کی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے
ایک یہ کہ اقتدار اعلیٰ ، جس کے مقابلہ میں بندگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے، صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ اس مقتدر اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔
تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، دوسروں کے عائد کردہ قوانین منسوخ کردیے جائیں۔
پس در حقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیا کے مشن میں یک سرمو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیت کے اعتبار سے فرق کیا ہے انہوں نے سخت غلطی کی ہے۔ مالک الملک کی طرف سے اس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ ہوسکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کو نافرمانی اور خود مختاری سے روکے، اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدار اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے، اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔
افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح (علیہ السلام) کے مشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسیح صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے
” تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر “ (متی ٤ ١٠)
اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امر شرعی کی اسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امر تکوینی کی اطاعت ہو رہی ہے
” تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو “ (متی ٦ ١٠)
پھر یہ بات کہ مسیح (علیہ السلام) اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے، اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدد اقوال سے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہل شہر ان کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی، مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا ” نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا “۔ اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انہوں نے جواب دیا ” ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو “ (لوقا ١٣ ٢٣ ) ۔ آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا ” مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے “۔ اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ” اگر یہ چپ رہیں گے تو پتھر پکار اٹھیں گے “ (لوقا ١٩ ٣٨۔ ٤٠) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا
” اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو، سب میرے پاس آؤ، میں تم کو آرام دونگا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھالو۔۔۔۔ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا “۔ (متی ١١ ٢٨۔ ٣٠)
پھر یہ بات کہ مسیح (علیہ السلام) انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھالیتے ہیں ؟ اس پر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ” یہ امت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مجھ سے دور ہیں، کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں “۔ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے تورات میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو برا کہے وہ جان سے مارا جائے۔ مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمہارے کام آسکتی تھیں انہیں میں خدا کی نذر کرچکا ہوں، اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں باپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متی ١٥ ٣۔ ٩۔ مرقس ٧ ٥۔ ١٣) Continue reading “سیدھا راستہ قران پاک سے”