تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ – آیت نمبر 13
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ
وہ اُس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اُونچی عمارتیں، تصویریں (1) ، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ۔۔۔۔ اے آلِ داوٴدؑ ، عمل کرو شکر کے طریقے پر ، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں
تشریح ( 1)
اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تمثال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بےجان چیز۔ التمثال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلق من خلق اللہ (لسان العرب) “” تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ” التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بےجان “۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جو ” تماثیل ” بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جن سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔
غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کرلیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب کو شرک و بت پرستی جادوگری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہرگز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب تورات کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو تورات کے قانون کی ناسخ ہوتی۔ اب تورات کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں
” تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ” (خروج۔ باب 20 ۔ آیت 4) ۔
تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو ” (احبار۔ باب 26، آیت 1)
” تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ” (استثنا، باب 4 ۔ آیت 16 ۔ 18) ۔
لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکروہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے “” (استثناء، باب 27 ۔ آیت 15)
ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جنوں سے لیا ہوگا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پر اعتماد کر کے کیسے تسلیم کرلی جائے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے (1 ۔ سلاطین۔ باب 11). Continue reading “تصاویر قابل توجہ”