بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ ۛ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ اللہ کی کتاب ہے ،اس میں کوئی شک نہیں2 ہے۔ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے3 لئے (سورة الْبَقَرَة 2)
اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ” بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ مگر ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائقِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔ (سورة الْبَقَرَة 3)
یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار “ ہو۔ بَھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 2)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ
جو غیب پر ایمان لاتے4 ہیں،نماز قائم کرتے ہیں5،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں6 (سورة الْبَقَرَة 6 – 4)
یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب “ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔
(سورة الْبَقَرَة 5)
یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہوجائے۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُوٴَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مُوٴَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہوجاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہوگیا ہے۔ پس ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامت صلوٰۃ ایک جامع اصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔ (سورة الْبَقَرَة 6)
یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں انہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 3)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ
جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے ﴿یعنی قرآن﴾ اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتےہیں7، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں8
(سورة الْبَقَرَة 8 – 7)
یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب یا ان کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہی اسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء فیض صرف ان لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔
(سورة الْبَقَرَة 8)
یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ ” آخرت “ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں
(١) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
(٢) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔
(٣) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔
(٤) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنّت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔
(٥) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔
عقائد کے اس مجمو عے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 4)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
أُولَئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں (القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 5)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔
یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 102)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ، یہ بڑھتا اور چڑھتا سُود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے)
احد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیم مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سود خواری سے باز آؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بےحد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 130)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ،حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے
اصل عربی متن میں صابِرُوْا کا لفظ آیا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ کفار اپنے کفر پر جو مضبوطی دکھا رہے ہیں اور اس کو سربلند رکھنے کے لیے جو زحمتیں اٹھا رہے ہیں تم ان کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی دکھاؤ۔ دوسرے یہ کہ ان کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھاؤ۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 200)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اُس کی جناب میں بار یابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے
یعنی ہر اس ذریعہ کے طالب اور جویاں رہوں جس سے تم اللہ کا تقرب حاصل کرسکو اور اس کی رضا کو پہنچ سکو۔
اصل میں لفظ جاھِدُوْ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم محض ” جدوجہد “ سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا۔ مجاہدہ کا لفظ مقابلہ کا مقتضی ہے اور اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو قوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں، جو تم کو خدا کی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اور اس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں، جو تم کو پوری طرح خدا کی بندہ بن کر نہیں رہنے دیتیں اور تمہیں اپنا یا کسی غیر اللہ کا بندہ بننے پر مجبور کرتی ہیں، ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اور جدوجہد کرو۔ اسی جدوجہد پر تمہاری فلاح و کامیابی کا اور خدا سے تمہارے تقرب کا انحصار ہے۔
اس طرح یہ آیت بندہ مومن کو ہر محاذ پر چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کرتی ہے۔ ایک طرف ابلیس لعین اور اس کا شیطانی لشکر ہے۔ دوسری طرف آدمی کا اپنا نفس اور اس کی سرکش خواہشات ہیں۔ تیسری طرف خدا سے پھرے ہوئے بہت سے انسان ہیں جن کے ساتھ آدمی ہر قسم کے معاشرتی، تمدنی اور معاشی تعلقات میں بندھا ہوا ہے۔ چوتھی طرف وہ غلط مذہبی، تمدنی اور سیاسی نظام ہیں جو خدا سے بغاوت پر قائم ہوئے ہیں اور بندگی حق کے بجائے بندگی باطل پر انسان کو مجبور کرتے ہیں۔ ان سب کے حربے مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ آدمی کو خدا کے بجائے اپنا مطیع بنائیں۔ بخلاف اس کے آدمی کی ترقی کا اور تقرب خداوندی کے مقام تک اس کے عروج کا انحصار بالکلیہ اس پر ہے کہ وہ سراسر خدا کا مطیع اور باطن سے لے کر ظاہر تک خالصتًہ اس کا بندہ بن جائے۔ لہٰذا اپنے مقصود تک اس کا پہنچنا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مانع و مزاحم قوتوں کے خلاف بیک وقت جنگ آزما ہو، ہر وقت ہر حال میں ان سے کشمکش کرتا رہے اور ان ساری رکاوٹوں کو پامال کرتا ہوا خدا کی راہ میں بڑھتا چلا جائے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 5 – المائدة – آیت 35)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمیّد ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔
(سورة الْمَآىِٕدَة 90)
آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة مائدہ، ١٢ و ١٤۔ اس سلسلہ میں جوئے کی تشریح بھی ١٤ میں مل جائے گی۔ اگرچہ پانسے ( جوئے) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیات سے آلودہ ہو۔ اور میسر کا اطلاق ان کھیلوں اور ان کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی امور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیم اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ (سورة الْمَآىِٕدَة 90)
اس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤخر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے
شراب کی حرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے، جو سورة بقرہ آیت ٢١٩ اور سورة نساء آیت ٤٣ میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حرمت کا حکم آجائے، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کردیں۔ اس کے کچھ مدت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کردیں۔ چناچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم یہودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے اسے تحفۃً دینے سے بھی منع کردیا ہے “۔ بعض لوگوں نے پوچھا ہم شراب کو سرکے میں کیوں نہ تبدیل کردیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ ” نہیں، اسے بہا دو “۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے ؟ فرمایا ” نہیں، وہ دوا نہیں ہے بلکہ بیماری ہے “۔ ایک اور صاحب نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے۔ فرمایا ” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو “۔
ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مبتاعھا و عاصرھا و معتصرھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کرلے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کرلے جائی گئی ہو “۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔ ابتداءً آپ نے ان برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی۔ بعد میں جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح نافذ ہوگیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھا دی۔
خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجازاً گیہوں، جو، کشمش، کھجور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرمت کے اس حکم کو تمام ان چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چناچہ حدیث میں حضور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے “۔ کل شرابٍ اسکر فھو حرام۔” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے “۔ وانا انھی عن کل مسکرٍ ۔” اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں “۔ حضرت عمر (رض) نے جمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل۔” خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے “۔
نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اصول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام۔” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے “۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفل الکف منہ حرام۔” جس چیز کا ایک پورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چلو پینا بھی حرام ہے “۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اس جرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اسے جوتے، لات، مکے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجور کے سنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ٤٠ ضربیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اس جرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) کے زمانے میں ٤٠ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جرم سے باز نہیں آتے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورے سے ٨٠ کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعی (رح) بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ابن حنبل (رح) اور ایک دوسری روایت کے مطابق امام شافعی (رح) ٤٠ کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی (رض) نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔
شریعت کی رو سے یہ بات حکومت اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دوسرے موقع پر ایک پورا گاؤں حضرت عمر (رض) کے حکم سے اس قصور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 5 – المائدة – آیت 90)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے
(سورة الْاَنْعَام 21)
یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خدا کے ساتھ دوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں، خدائی صفات سے متصف ہیں، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیت کا رویہ اختیار کرے۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اسی نے یہ حکم دیا ہے، یا کم از کم یہ کہ وہ اس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔ (سورة الْاَنْعَام 21)
اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر، کسی علم، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے۔
اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں، اور وہ بھی جو کتب آسمانی میں پیش کی گئیں۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر، کسی علم، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر، مجرد قیاس و گمان یا تقلید آبائی کی بنا پر، دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن – سورۃ 6 – الأنعام – آیت 21)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ
پھر ہم خود پور ے علم کے ساتھ سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے
القرآن – سورۃ 7 – الأعراف – آیت 7
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگیا اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ با وزن ہوگا۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا وزن کے لحاظ سے ہوگا، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں، اس ترازو میں سراسر بےوزن قرار پائے گی۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورة کہف آیات ١٠٣ تا ١٠٥ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کی کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے۔
تفہیم القرآن – سورۃ 7 – الأعراف – آیت 8
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
جو اِس پیغمبرنبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں (1)جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے(2)۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے(3)، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے(4)۔لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
تشریح ( 1)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ انہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پرہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نافرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اس نافرمانی سے پرہیز نہ کرو گے تقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت الہٰی سے حصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامت دین حق کی اس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہوگی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذر و نیاز کرتے ہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف ان لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پاسکتے۔ لہٰذا جب تک ان پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہوگی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔
یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ” اُمّی “ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کی اُمّی (Gentiles) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کرلیں۔ چناچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ (آل عمران آیت ٧٥) ” اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے، اس کی پیروی قبول کرو گے تو میری رحمت سے حصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو۔
تشریح ( 2)
مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں استشناء، باب ١٨، آیت ١٥ تا ١٩۔ متی، باب ٢١ تا ٤٦۔ یوحنا، باب ١، آیت ١٩ تا ٢١۔ یوحنا باب ١٤، آیت ١٥ تا ١٧ و آیت ٢٥ تا ٣٠ یوحنا، باب ١٥، آیت ٢٥۔ ٢٦ یوحنا، باب ١٦، آیت ٧ تا ١٥۔
تشریح ( 3)
یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے۔
تشریح ( 4)
یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے توہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کس رکھا ہے، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کردیتا ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ 7 – الأعراف – آیت 157
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
بخلاف اس کے رسولؐ نے اور ان لوگوں نے جو رسولؐ کے ساتھ ایمان لائے تھے ا پنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
القرآن – سورۃ 9 – التوبة – آیت 88
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ
پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔(1) یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔“(2)
تشریح ( 1)
یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔
تشریح ( 2)
بعض نادان لوگ ” فلاح “ کو طویل عمر، یا دنیوی خوشحالی، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاح ” فلاح “ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اس قانون امہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔
اول تو یہ بات کہ ” مجرم فلاح نہیں پاسکتے “ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کرلیں کہ جو مدعی نبوت ” فلاح “ پا رہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کردیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ” میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کرسکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہوگی “۔
پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک داعی حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دو چار ہو، شدت آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہو کر دنیا سے جلدی رخصت ہوجائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔
علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تو اللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اس سزا کے مستحق ہوجائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ” فلاح “ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہوگی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانون امہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔
ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کرے جو سورة الحاقہ آیات ٤٤ – ٤٧ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ ۔ لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ ۔” یعنی اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ دل کاٹ ڈالتے “۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فورا پکڑا جائے۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانون امہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہوگا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں، تو ان پر ضابطہ ملازمت کا نفاذ نہ ہوگا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ علاوہ بریں سورة الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردہ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام، اور اس چیز سے جو وہ پیش کر رہا ہو، ممکن نہ ہوتی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔
تفہیم القرآن – سورۃ 10 – يونس – آیت 17
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
اور یہ جو تمہاری زبانیں جھُوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھُوٹ نہ باندھا کرو۔(1)جو لوگ اللہ پر جھُوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پایا کرتے
تشریح ( 1)
یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں، یا بالفاظ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا، الا یہ کہ وہ قانون الہی کو سند مان کر اس کے فرامین سے استنباط کرتے ہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔
اس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا وہ اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ جسے وہ کتاب الہی کی سند سے بےنیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔ یا اس کا دعوی یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے جو دعوی بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ 16 – النحل – آیت 116
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اورسجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ (1)
تشریح ( 1)
یعنی فلاح کی توقع اگر کی جاسکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی شخص فلاح پاسکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کرلینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
” شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ ” یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔
امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورة حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ، امام مالک، حسن بصری، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کردیتے ہیں۔
پہلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن مردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسول اللہ افضلت سورة الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین ؟ قال نعم فمن لم یسجدھما فلا یقرأھما۔ ” میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا سورة حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے “۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمر، علی، عثمان، ابن عمر، ابن عباس، ابو الدرداء، ابو موسیٰ اشعری اور عمار بن یاسر (رض) سے یہ بات منقول ہے کہ سورة حج میں دو سجدے ہیں۔
دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورة حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے، اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔
تفہیم القرآن – سورۃ 22 – الحج – آیت 77
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے(1)
تشریح ( 1)
ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہوگئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔
فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہوگیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہوگئی۔
قَدْ اَفْلَحَ ” یقیناً فلاح پائی ” آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کردیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ” یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ” تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے، تمہارے اندازے غلط ہیں، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔
یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ 23 – المؤمنون – آیت 1
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبُود کو پکارے، جس کے لیے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں (1) تو اُس کا حساب اُس کے ربّ کے پاس ہے۔ (2) ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ (3)
تشریح ( 1)
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اس کے لئے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے “۔
تشریح ( 2)
یعنی وہ محاسبے اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا۔
تشریح ( 3)
یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم رہنے والے کون۔
تفہیم القرآن – سورۃ 23 – المؤمنون – آیت 117
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
القرآن – سورۃ 24 – النور – آیت 51
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس (اے مومن)رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) (1)۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔(2)
تشریح ( 1)
یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پائے کہ یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑٰ ہستی ہے دان کرنے والی، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال ان دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں۔
اس ارشاد الہی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغٰر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free economy) کی موجودگی ناگزیر ہے، یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کردیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتی کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کردے سکے، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے میں کوئی جذبہ خیر سگالی پرورش کرسکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظام تمدن و معیشت، جسے آج کل ہمارے ملک میں ” قرآنی نظام ربوبیت ” کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جارہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشو و نما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعا بند ہوجاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل دولت کے مالک ہوں، ان پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا ورغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔ اسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی، رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلی اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہوجائے جس میں بدی کا رکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوت جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں۔
تشریح ( 2)
یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کردینے سے حاصل ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ ان حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ 30 – الروم – آیت 38