تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 95
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُل صَدَقَ اللّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ اِبرهِيمَ حَنِيفًا ؕ وَمَا كَانَ مِنَ المُشرِكِينَ
ترجمہ:کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے،تم کو یکسُو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیم ؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا۔78
تفسیر:سورة اٰلِ عِمْرٰن 78
مطلب یہ ہے کہ ان فقہی جزئیات میں کہاں جا پھنسے ہو۔ دین کی جڑ تو اللہ واحد کی بندگی ہے جسے تم نے چھوڑ دیا اور شرک کی آلائشوں میں مبتلا ہوگئے۔ اب بحث کرتے ہو فقہی مسائل میں، حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جو اصل ملت ابراہیمی سے ہٹ جانے کے بعد انحطاط کی طویل صدیوں میں تمہارے علماء کی موشگافیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّهَ لَا يَغفِرُ اَن يُّشرَكَ بِه وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَن يَّشَآءُ ۚ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَقَدِ افتَـرۤى اِثمًا عَظِيمًا
ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا،79 اِس کے ماسوا دُوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔80 اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جُھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی
تفسیر:سورة النِّسَآء 79
یہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب اگرچہ انبیاء اور کتب آسمانی کی پیروی کے مدعی تھے مگر شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔
سورة النِّسَآء 80
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی بس شرک نہ کرے باقی دوسرے گناہ دل کھول کر کرتا رہے۔ بلکہ دراصل اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ شرک، جس کو ان لوگوں نے بہت معمولی چیز سمجھ رکھا تھا، تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے حتٰی کہ اور گناہوں کی معافی تو ممکن ہے مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ معاف نہیں کیا جاسکتا۔ علماء یہود شریعت کے چھوٹے چھوٹے احکام کا تو بڑا اہتمام کرتے تھے، بلکہ ان کا سارا وقت ان جزئیات کی ناپ تول ہی میں گزرتا تھا جو ان کے فقیہوں سے استنباط در استنباط کر کے نکالے تھے، مگر شرک ان کی نگاہ میں ایسا ہلکا فعل تھا کہ نہ خود اس سے بچنے کی فکر کرتے تھے، نہ اپنی قوم کو مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچانے کی کوشش کرتے تھے، اور نہ مشرکین کی دوستی اور حمایت ہی میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا تھا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء – آیت نمبر 116
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ اللّهَ لَا يَغفِرُ اَن يُّشرَكَ بِه وَيَغفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ لِمَن يَّشَآءُ ؕ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَقَد ضَلَّ ضَللًاۢ بَعِيدًا
ترجمہ:اللہ کے ہاں144 بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتاہے جسے وہ معاف کر نا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا
تفسیر:سورة النِّسَآء 144
اس رکوع میں اوپر کے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ اپنی جاہلیت کے طیش میں آکر یہ شخص جس راہ کی طرف گیا ہے وہ کیسی راہ ہے، اور صالحین کے گروہ سے الگ ہو کر جن لوگوں کا ساتھ اس نے اختیار کیا ہے وہ کیسے لوگ ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 14
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُل اَغَيرَ اللّهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّموتِ وَالاَرضِ وَهُوَ يُطعِمُ وَلَا يُطعَمُؕ قُل اِنِّىۤ اُمِرتُ اَن اَكُونَ اَوَّلَ مَن اَسلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ المُشرِكِينَ
ترجمہ:کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟10 کہو مجھے تو یہی حکم دی گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں ﴿اور تائید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے﴾ تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 10
اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ مشرکوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ سب اپنے ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے الٹا ان سے رزق پانے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ نہیں جما سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پرستار اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا دربار خداوندی سج نہیں سکتا جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اس کو تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناؤٹی خدا بیچارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں۔ صرف ایک خداوند عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 19
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُلْ لَا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ
ترجمہ:ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ ۔۔۔۔ کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ،11 اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبّہ کردُوں۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دُوسرے خدا بھی ہیں؟12 کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا۔13 کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 11
یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں۔
سورة الْاَنْعَام 12
کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہان ہست و بود میں خدا کے سوا اور بھی کوئی کار فرما حاکم ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو ؟
سورة الْاَنْعَام 13
یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو ، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا۔
القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 79
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنِّى وَجَّهتُ وَجهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّموتِ وَالاَرضَ حَنِيفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ المُشرِكِينَۚ
ترجمہ:
میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں”
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 88
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
ذلِكَ هُدَى اللّهِ يَهدِى بِه مَن يَّشَآءُ مِن عِبَادِهؕ وَلَو اَشرَكُوا لَحَبِطَ عَنهُم مَّا كَانُوا يَعمَلُونَ
ترجمہ:یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہوجاتا۔56
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 56
یعنی جس شرک میں تم لوگ مبتلا ہو اگر کہیں وہ بھی اسی میں مبتلا ہوئے ہوتے تو یہ مرتبے ہرگز نہ پاسکتے تھے۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص کامیاب ڈاکہ زنی کر کے فاتح کی حیثیت سے دنیا میں شہرت پا لیتا، یا زر پرستی میں کمال پیدا کر کے قارون کا سا نام پیدا کرلیتا، یا کسی اور صورت سے دنیا کے بدکاروں میں نامور بدکار بن جاتا۔ لیکن یہ امام ہدایت اور امام المتقین ہونے کا شرف اور یہ دنیا بھر کے لیے خیر و صلاح کا سرچشمہ ہونے کا مقام تو کوئی بھی نہ پاسکتا اگر شرک سے مجتنب اور خالص خدا پرستی کی راہ پر ثابت قدم نہ ہوتا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 107
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَلَو شَآءَ اللّهُ مَاۤ اَشرَكُوا ؕ وَمَا جَعَلنكَ عَلَيهِمۡ حَفِيظًا ۚ وَمَاۤ اَنتَ عَلَيهِم بِوَكِيلٍ
ترجمہ:اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو ﴿وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ﴾ یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔71
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 71
مطلب یہ ہے کہ تمہیں داعی اور مبلغ بنایا گیا ہے، کو توال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اور اظہار حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمت الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا ؟ مگر وہاں تو مقصود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے۔ پس تمہارے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمہیں دکھا دی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انہیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انہیں چھوڑ دو ۔
سورة الْاَنْعَام 72
یہ نصحیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیرو وں کو کی گئ ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بےقابو نہ ہوجائیں کہ مناظرے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقاء د پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبودوں کو گالیاں دینے تک نوبت پہنچ جائے، کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دور پھینک دے گی۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 108
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّوا اللّهَ عَدوًاۢ بِغَيرِ عِلمٍ ؕ كَذلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُم ۖ ثُمَّ اِلى رَبِّهِم مَّرجِعُهُم فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ
ترجمہ:اور ﴿اے ایمان لانے والو !﴾ یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ 72 ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنادیا ہے،73 پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتادے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 73
یہاں پھر اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کرچکے ہیں کہ جو امور قوانین فطرت کے تحت رونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اپنا فعل قرار دیتا ہے، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رونما ہوتا ہے۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام – آیت نمبر 148
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
سَيَـقُولُ الَّذِينَ اَشرَكُوا لَو شَآءَ اللّهُ مَاۤ اَشرَكنَا وَلَاۤ ابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمنَا مِن شَىءٍ ؕ كَذلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبلِهِم حَتّى ذَاقُوا بَاسَنَا ؕ قُل هَل عِندَكُم مِّن عِلمٍ فَتُخرِجُوهُ لَـنَا ؕ اِن تَتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِن اَنـتُم اِلَّا تَخرُصُونَ
ترجمہ:یہ مشرک لوگ ﴿تمہاری ان باتوں کے جواب میں﴾ ضرور کہیں گے کہ ”اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے“۔124 ایسی ہی باتیں بنا بنا کر اِن سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا۔ ان سے کہو ”کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کرسکو؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو“
تفسیر:سورة الْاَنْعَام 124
یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھہرا رکھا ہے انہیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس – آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَيَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ مَا لَا يَضُرُّهُم وَلَا يَنفَعُهُم وَيَقُولُونَ هٓؤُلَاۤءِ شُفَعَآؤُنَا عِندَ اللّهِؕ قُل اَتُـنَـبِّـــُٔونَ اللّهَ بِمَا لَا يَعلَمُ فِى السَّموتِ وَلَا فِى الاَرضِؕ سُبحنَه وَتَعلى عَمَّا يُشرِكُونَ
ترجمہ:یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نا نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمد ؐ ، ان سے کہو ” کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟24“ پاک ہے وہ اور بالا وبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
تفسیر:سورة یُوْنُس 24
کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو ؟
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس – آیت نمبر 28
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَيَومَ نَحشُرُهُم جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ اَشرَكُوا مَكَانَكُم اَنتُم وَشُرَكَآؤُكُمۚ فَزَيَّلنَا بَينَهُم وَقَالَ شُرَكَآؤُهُم مَّا كُنتُم اِيَّانَا تَعبُدُونَ
ترجمہ:جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ ﴿اپنی عدالت میں﴾ اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاوٴ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے36 اور ان کے شریک کہیں گے کہ ” تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے
تفسیر:سورة یُوْنُس 36
متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط وتعلق توڑ دیں گے تاکہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورہ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کردیں گے، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کردیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرز بیان اختیار کیا ہے کہ ” ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے “ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہوگی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف – آیت نمبر 108
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُل هذِه سَبِيلِىۤ اَدعُوۤا اِلَى اللّهِ ۚ عَلى بَصِيرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىؕ وَسُبحنَ اللّهِ وَمَاۤ اَنَا مِنَ المُشرِكِينَ
ترجمہ:
تم ان سے صاف کہہ دو کہ ” میرا رستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے78 اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔“
تفسیر:
٧٨۔ یعنی ان باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جارہی ہیں، ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدے کی بنا پر لازما اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں، ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا منقطی نتیجہ ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر – آیت نمبر 94
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
فَاصدَع بِمَا تُؤمَرُ وَ اَعرِض عَنِ المُشرِكِينَ
ترجمہ:پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل – آیت نمبر 1
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اَتى اَمرُ اللّهِ فَلَا تَستَعجِلُوهُ ؕ سُبحنَه وَتَعلى عَمَّا يُشرِكُونَ
ترجمہ:آگیا اللہ کا فیصلہ،1 اب اس کے لیے جلدی نہ مچاوٴ، پاک ہے وہ اور بالا و بر تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔2
تفسیر:سورة النَّحْل 1
یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اس کے ظہور و نفاد کا وقت قریب آ لگا ہے۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغہ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بدعملی کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اور آخری فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ” فیصلہ “ کیا تھا اور کس شکل میں آیا ؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب) کہ اس فیصلے سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ان کے حجود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم ان کی قسمت کا فیصلہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد یا تو ان پر تباہ کن عذاب آجاتا ہے، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفار مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکہ سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔
سورة النَّحْل 2
پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آجاتا خدا کو وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ ان کا مشرکانہ مذہب ہی برحق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر ہماری شامت نہ آجاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فورا یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہرگز وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل – آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
خَلَقَ السَّموتِ وَالاَرضَ بِالحَـقِّؕ تَعلى عَمَّا يُشرِكُونَ
ترجمہ:اُس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔6
تفسیر:سورة النَّحْل 6
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین و آسمان کا پورا کارخانہ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانہ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی برحقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہین منت ہے۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہوسکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے ؟۔۔ اس کے بعد آثار کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل – آیت نمبر 86
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَ اِذَا رَاَ الَّذِينَ اَشرَكُوا شُرَكَآءَهُم قَالُوا رَبَّنَا هٓؤُلَاۤءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدعُوا مِن دُونِكَۚ فَاَلقَوا اِلَيهِمُ القَولَ اِنَّكُم لَـكذِبُونَۚ
ترجمہ:اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے ” اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے۔“ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ”تم جھُوٹے ہو۔“83
تفسیر:سورة النَّحْل 83
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بجائے خود اس واقعہ کا انکار کریں گے کہ مشرکین انہیں حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا کرتے تھے، بلکہ دراصل وہ اس واقعہ کے متعلق اپنے علم و اطلاع اور اس پر اپنی رضامندی و ذمہ داری کا انکار کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو، نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکار رہے ہو۔ تم نے اگر ہمیں سمیع الدُّعا اور مجیب الدعوات، اور دستگیر و فریاد رس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑ لی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے۔ اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کرتے ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل – آیت نمبر 100
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا سُلطنُه عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّونَه وَالَّذِينَ هُم بِه مُشرِكُونَ
ترجمہ:
اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں ؏
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج – آیت نمبر 17
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصّبِـــِينَ وَالنَّصرى وَالمَجُوسَ وَالَّذِينَ اَشرَكُوۤا ۖ اِنَّ اللّهَ يَفصِلُ بَينَهُم يَومَ القِيمَةِ ؕ اِنَّ اللّهَ عَلى كُلِّ شَىءٍ شَهِيدٌ
ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے، 23 اور جو یہوُدی ہوئے، 24 اور صابئی، 25 اور نصاریٰ، 26 اور مجوس 27 ، اور جن لوگوں نے شرک کیا، 28 ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے
تفسیر:سورة الْحَجّ 23
یعنی ” مسلمان ” جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء، اور اس کی کتابوں کو مانا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہوجاتے تھے مگر ” کنارے ” پر رہ کر بندگی کرتے تھے۔ اور کفر و ایمان کے درمیان تذبذب تھے۔
سورة الْحَجّ 24
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، حاشیہ 72 ۔
سورة الْحَجّ 25
صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے، اور حضرت یحییٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس (علیہما السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیاروں کی اور سیاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حران تھا اور عراق کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور جن طب کے کمالات کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزول قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا۔
سورة الْحَجّ 26
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، المائدہ، حاشیہ 36 ۔
سورة الْحَجّ 27
یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مزدک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پا گیا تھا۔
سورة الْحَجّ 28
یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورہ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مشرکین اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا کے اصطلاحی ناموں سے یاد کرتا ہے، اگرچہ اہل ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہوچکا تھا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج – آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
حُنَفَآءَ لِلّهِ غَيرَ مُشرِكِينَ بِهؕ وَمَن يُّشرِك بِاللّهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخطَفُهُ الطَّيرُ اَو تَهوِى بِهِ الرِّيحُ فِى مَكَانٍ سَحِيقٍ
ترجمہ:یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گِر گیا، اب یا تو اُسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جاکر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔ 59
تفسیر:سورة الْحَجّ 59
اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کرلے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے، اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے۔ نہ کہ پستیوں کی طرف۔ لیکن شرک (اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان، جن کو اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشات نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے، اسے اڑائے اڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔
سحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں۔ کسی جگہ کو سحیق اس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہوجائے۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پرزے اڑ جائیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون – آیت نمبر 92
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
علِمِ الغَيبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعلى عَمَّا يُشرِكُونَ
ترجمہ:کھُلے اور چھُپے کا جاننے والا، 86 وہ بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں
تفسیر:سورة الْمُؤْمِنُوْن 86
اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اس خاص قسم کے شرک کی طرف جس نے پہلے شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی، اور پھر غیر اللہ کے لیے علم غیب (علم ماکان و ما یکون) کے اثبات کی شکل اختیار کرلی۔ یہ آیت اس شرک کے دونوں پہلوؤں کی تردید کردیتی ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ ، حواشی 85 ۔ 86 ۔ الانبیاء حاشیہ 27) ۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل – آیت نمبر 63
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اَمَّن يَّهدِيكُم فِى ظُلُمتِ البَرِّ وَ البَحرِ وَمَن يُّرسِلُ الرِّيحَ بُشرًۢا بَينَ يَدَى رَحمَتِهؕ ءَاِلـهٌ مَّعَ اللّهِؕ تَعلَى اللّهُ عَمَّا يُشرِكُونَؕ
ترجمہ:اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے78 اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواوٴں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟79 کیا اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا)ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
تفسیر:سورة النمل 78
یعنی جس نے ستاروں کے ذریعہ سے ایسا انتظام کردیا ہے کہ تم رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کرسکتے ہو، یہ بھی اللہ کی حکیمانہ تدبیروں میں سے ایک ہے کہ اس نے بحری اور بری سفروں میں انسان کی رہنمائی کے لیے وہ ذرائع پیدا کردیے جن سے وہ اپنی سمت سفر اور منزل مقصود کی طرف اپنی راہ متعین کرتا ہے۔ دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اور آفتاب کے طلوع و غروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اور تاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ سورة نحل میں ان سب کو اللہ تعالیٰ کے احسانات میں شمار کیا گیا ہے۔ وَعَلٰمٰتٍ ۭ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ (آیت 16)
سورة النمل 79
رحمت سے مراد بارش جس کے آنے سے پہلے ہوائیں اس کی آمد آمد کی خبر دے دیتی ہیں۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص – آیت نمبر 68
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَرَبُّكَ يَخلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَختَارُؕ مَا كَانَ لَهُمُ الخِيَرَةُ ؕ سُبحنَ اللّهِ وَتَعلى عَمَّا يُشرِكُونَ
ترجمہ:تیرا ربّ پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے)منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے،90 اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
تفسیر:سورة القصص 90
یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے، مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جو بیشمار معبود اپنے لیے بنا لیے ہیں، اور ان کو اپنی طرف سے جو اوصاف، مراتب اور مناصب سونپ رکھے ہیں، اس پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں، فرشتوں، جنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کو جیسے چاہتے ہیں اوصاف، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہتے ہیں لیتے ہیں، یہ اختیارات آخر ان مشرکین کو کیسے اور کہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میں سے جس کو چاہیں مشکل کشا، جسے چاہیں گنج بخش اور جسے چاہیں فریاد فرس قرار دے لیں ؟ جسے چاہیں بارش برسانے کا مختار، جسے چاہیں روزگار یا اولاد بخشنے والا، جسے چاہیں بیماری و صحت کا مالک بنادیں ؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کا رماں روا ٹھہرا لیں ؟ اور میرے اختیارات میں سے جو کچھ جس کو چاہیں سونپ دیں ؟ کوئی فرشتہ ہو یا جن یا نبی یا ولی، بہرحال جو بھی ہے ہمارا پیدا کیا ہوا ہے، جو کمالات بھی کسی کو ملے ہیں ہماری عطا و بخشش سے ملے ہیں، اور جو خدمت بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے۔ اس برگزیدگی کے یہ معنی آخر کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے پر پہنچا دیے جائیں اور خدا کو چھوڑ کر ان کے آگے سر نیاز جھکا دیا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ لیا جائے، اور انہیں خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا جائے ؟
القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت – آیت نمبر 65
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
فَاِذَا رَكِبُوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللّهَ مُخلِصِينَ لَـهُ الدِّينَ ۚ فَلَمَّا نَجّهُمۡ اِلَى البَـرِّ اِذَا هُم يُشرِكُونَۙ
ترجمہ:جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس سے دُعا مانگتے ہیں، پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم – آیت نمبر 33
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ اِلَيهِ ثُمَّ اِذَاۤ اَذَاقَهُم مِّنهُ رَحمَةً اِذَا فَرِيقٌ مِّنهُم بِرَبِّهِم يُشرِكُونَۙ
ترجمہ:لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتے ہیں،52 پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انھیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں53
تفسیر:سورة الروم 52
یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے، امیدوں کے سہاروں جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔
سورة الروم 53
یعنی پھر دوسرے معبودوں کی نذریں اور نیازیں چڑھنی شروع ہوجاتی ہیں اور کہا جانے لگتا ہے کہ یہ مصیبت فلاں حضڑت کے طفیل اور فلاں آستانے کے صدقے میں ٹلی ہے۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم – آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اَم اَنزَلنَا عَلَيهِم سُلطنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِه يُشرِكُونَ
ترجمہ:کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟54
تفسیر:سورة الروم 54
یعنی آخر کس دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں ؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے ؟ یا کوئی کتاب الہی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے ؟
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم – آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَٰلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
ترجمہ:
61اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تمہیں رزق دیا،62 پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟63 پاک ہے وہ اور بہت بالا و بر تر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
تفسیر:
سورة الروم 61
یہاں سے پھر کفار و مشرکین کو سمجھانے کے لیے سلسلہ کلام توحید و آخرت کے مضمون کی طرف پھرجاتا ہے۔
سورة الروم 62
یعنی زمین میں تمہارے رزق کے لیے جملہ وسائل فراہم کیے اور ایسا انتظام کردیا کہ رزق کی گردش سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصہ پہنچ جائے۔
سورة الروم 63
یعنی اگر تمہارے بنائے ہوئے معبودوں میں سے کوئی بھی نہ پیدا کرنے والا ہے، نہ رزق دینے والا، نہ موت و زیست اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اور نہ مرجانے کے بعد وہ کسی کو زندہ کردینے پر قادر ہے، تو آخری لوگ ہیں کس مرض کی دوا کہ تم نے انہیں معبود بنا لیا ؟
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان – آیت نمبر 13
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
ترجمہ:یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا ”بیٹا !خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، 20 حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے “ 21
تفسیر:سورة لُقْمٰن 20
لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اول یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہوسکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کرسکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک برے سے برا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لخت جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دین شرک پر قائم رہنے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتارہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی ؟
سورة لُقْمٰن 21
ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلم عظیم ہے کہ آدمی ان ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ ان نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بےانصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بےانصافی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پھر آدمی پر اس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگی غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے اس میں وہ اپنے ذہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالانکہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آپ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحق عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر – آیت نمبر 14
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
اِن تَدعُوهُم لَا يَسمَعُوا دُعَآءَكُم ۚ وَلَو سَمِعُوا مَا استَجَابُوا لَـكُم ؕ وَيَومَ القِيمَةِ يَكفُرُونَ بِشِركِكُم ؕ وَلَا يُـنَـبِّـئُكَ مِثلُ خَبِيرٍ
ترجمہ:انہیں پکارو تو وہ تمہاری دُعائیں سُن نہیں سکتے اور سُن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ 33 اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے ۔ 34 حقیقت ِ حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبر دار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ 35
تفسیر:سورة فَاطِر 33
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں کرسکتے۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائگاں جاتی ہے، کیونکہ وہ جس کے پاس بھیجی گئی ہے اس کے ہاتھ میں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، نہ رد کرنے کا اختیار اور نہ قبول کرنے کا اختیار۔ البتہ اگر وہی درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو، تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہوگی، قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو یا رد کرنے کی شکل میں۔
سورة فَاطِر 34
یعنی وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک ہیں، تم ہماری عبادت کیا کرو۔ بلکہ ہمیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ یہ ہم کو اللہ رب العالمین کا شریک ٹھہرا رہے ہیں اور ہم سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان کی کوئی دعائیں نہیں پہنچی اور ان کی کسی نذر و نیاز کی ہم تک رسائی نہیں ہوئی۔
سورة فَاطِر 35
خبردار سے مراد اللہ تعالیٰ خود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بےاختیاری بیان کرے گا۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست باخبر ہیں۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھہرا رکھا ہے وہ سب بےاختیار ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردید کریں گے۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر – آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِنْهُ ۚ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا
ترجمہ:
(اے نبیؐ )ان سے کہو” کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے اُن شریکوں 66 کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو ؟ مجھے بتاوٴ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے؟ “(اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو)کیا ہم نے کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے )کوئی صاف سَنَد رکھتے ہوں؟ 67 نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دُوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جارہے ہیں 68
تفسیر:
سورة فَاطِر 66
” اپنے شریک ” کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے کہ درحقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں، مشرکین نے ان کو اپنے طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے۔
سورة فَاطِر 67
یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے، یا بےروزگاروں کو روزگار دلوانے، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختار کار بنادیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پر انہی ” چھوٹے خداؤں ” کا شکر بجا لانا چاہیے۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کرلیے ہیں۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے ؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کرسکتے۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں یہ فرمایا ہے، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو ؟ تم وہ بھی پیش نہیں کرسکتی۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو ؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو ؟
سورة فَاطِر 68
یعنی یہ پیشوا اور پیر، یہ پنڈت اور پروہت، یہ کاہن اور واعظ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کرلے جاؤ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر – آیت نمبر 65
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ:
(یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیونکہ)تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا 74 اور تم خسارے میں رہو گے
تفسیر:
سورة الزُّمَر 74
یعنی شرک کے ساتھ کسی عمل کو عمل صالح قرار نہیں دیا جائے گا، اور جو شخص بھی مشرک رہتے ہوئے اپنے نزدیک بہت سے کاموں کو نیک کام سمجھتے ہوئے کرے گا ان پر وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہوگا اور اس کی پوری زندگی سراسر زیاں کاری بن کر رہ جائے گی۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر – آیت نمبر 67
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
ترجمہ:اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ 75 (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ )قیامت کے روز پُوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ 76 پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ 77
تفسیر:سورة الزُّمَر 75
یعنی ان کو اللہ کی عظمت وکبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں۔
سورة الزُّمَر 76
زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے۔ جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سی گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا، اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت وکبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رومال کی طرح ہیں۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاوت فرمائی اور فرمایا ” اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں (یعنی سیاروں) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے، اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبار، میں ہوں کبریائی کا مالک، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ؟ کہاں ہیں جبار ؟ کہاں ہیں متکبر، ؟ یہ کہتے کہتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت گر نہ پڑیں۔
سورة الزُّمَر 77
یعنی کہاں اس کی یہ شان عظمت وکبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور – آیت نمبر 43
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ لَهُمۡ اِلهٌ غَيرُ اللّهِؕ سُبحنَ اللّهِ عَمَّا يُشرِكُوۡنَ
ترجمہ:کیا اللہ کے سوا یہ کوئی اور معبود رکھتے ہیں؟ اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ 35
تفسیر:سورة الطُّوْر 35
یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ کن کو انہوں نے اِلٰہ بنا رکھا ہے و حقیقت میں اِلٰہ نہیں ہیں اور شرک سراسر ایک بےاصل چیز ہے۔ اس لیے جو شخص توحید کی دعوت لے کر اٹھا ہے اس کے ساتھ سچائی کی طاقت ہے اور جو لوگ شرک کی حمایت کر رہے ہیں وہ ایک بےحقیقت چیز کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی میں شرک آخر کیسے جیت جائے گا ؟
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر – آیت نمبر 23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هُوَ اللّهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلهَ اِلَّا هُوَۚ اَلمَلِكُ القُدُّوۡسُ السَّلمُ المُؤۡمِنُ المُهَيمِنُ العَزِيزُ الجَـبَّارُ المُتَكَبِّرُؕ سُبحنَ اللّهِ عَمَّا يُشرِكُوۡنَ
ترجمہ:وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ 36 ہے نہایت مقدّس، 37 سراسر سلامتی، 38 امن دینے والا، 39 نگہبان، 40 سب پر غالب، 41 اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا 42 اور وہ بڑا ہی ہو کر رہنے والا۔ 43 پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔ 44
تفسیر:سورة الْحَشْر 36
اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
وَلَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہ قٰنِتُوْنَ (الروم 26)
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔
یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ 5) ۔
آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ۔ (الحدید 5) ۔
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ (الفرقان 2
بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس 83) ۔
ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ (البروج 16) ۔
جس چیز کا ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا۔
لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء 23)
جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔
وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۔ (الرعد 41)
اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔
وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَيْهِ ۔ (المؤمنون 88) ۔
اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران 26 ) ۔
کہو، خدایا، ملک کے مالک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
ان توضیحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ درحقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل نہیں ہے، کیونکہ حاکمیت سرے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہوجاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہو، جس کا قیام وبقاء عارضی و وقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔
لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے۔
سورة الْحَشْر 37
اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ قدس ہے۔ قدس کے معنی ہیں تمام بری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدرجہا بالا و برتر ہے کہ اس کی ذات میں کوئی عیب، یا نقص، یا کوئی قبیح صفت پائی جائے۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی برائی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد نیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے برائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کرلیتا ہے، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا در حقیقت کوئی مقتدر اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت، بہرحال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
سورة الْحَشْر 38
اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی۔ کسی کو سلیم، یا سام کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے۔
سورة الْحَشْر 39
اصل میں لفظ اَلْمُؤْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا، یا اس کا حق مارے گا، یا اس کا اجر ضائع کرے گا، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے۔
سورة الْحَشْر 40
اصل میں لفظ اَلْمُھَیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے، شاہد، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے، قائم بامور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ، کس کا شاہد، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری، اور پرورش، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے۔
سورة الْحَشْر 41
اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبردست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو، جس کے آگے سب بےبس اور بےزور ہوں۔
سورة الْحَشْر 42
اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے۔ جبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حقیقی مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند وبالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے۔
سورة الْحَشْر 43
اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ انسان ہو یا شیطان، یا کوئی اور مخلوق، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔
سورة الْحَشْر 44
یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں، یا اس کی ذات میں، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو۔
تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف – آیت نمبر 173
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
ترجمہ:یا یہ نہ کہنے لگو کہ ”شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصُور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔“135
تفسیر:سورة الْاَعْرَاف 135
اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں۔ انہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہوسکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوع انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بیخبر ی کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہوسکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے ؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغاز آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ کہا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہوچکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہوجاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور (Sub-conscious mind) اور وجدان (Intuition) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة (Potentially) موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا کہ جو کچھ بالقوة تھا اسے بالفعل کردیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت، کوئی ماحول تاثیر اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی، جو اس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہرگز پیدا نہیں کرسکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ان چیزوں میں سے، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کردیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف (Pervert) کردیں۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے
وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت ان چیزوں سے ہمیں ملتا ہے جو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں۔
ان سب کے ظہور میں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی) ، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔
ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تاثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کرسکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کرسکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی (Conversion) ممکن ہوتی ہے۔
ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالق کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے
اس کے موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں ابھرتا رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
اس کے مطابق حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ ابھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کار فرما ہوا ہے اس نے صالح اور مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔
اس کو ابھرنے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، چناچہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتب آسمانی اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان کو قرآن میں مذکِّر (یاد دلانے والے) ذِکر (یاد) تذکرہ (یادداشت) اور اب ان کے کام کو تذکیر (یاد دہانی) کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔
نفس انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اس تذکیر کا جواب بصورت لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے ابھر آیا۔
پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیاطینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، دہریت، الحاد، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اسے ابھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کرسکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کرسکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہوگا اس روز ان کا خالق ان کے شعور و حافظہ میں روز ازل کے اس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم کر دے گا کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الاشہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اٹھیں، اپنی اور اپنے گردوپیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیان حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ ابھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کردیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ (الاَنعام، ١٣٠) ۔