سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر : 63 یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آجائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غرقاب ہوجانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ان احدکم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ ” تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا۔ ” (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول، صفحہ 386 ۔ جلد دوم، ص 150 ۔ 535 تا 538 ۔ جلد سوم، ص 2
فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ
فَكَيْفَ : پس کیسا اِذَا تَوَفَّتْهُمُ : جب ان کی روح قبض کریں گے الْمَلٰۗىِٕكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : وہ مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہروں وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھوں
پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے 37 ؟
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر : 37 یعنی دنیا میں تو یہ طرز عمل انہوں نے اس لیے اختیار کرلیا کہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں اور کفر و اسلام کی جنگ کے خطرات سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں، لیکن مرنے کے بعد یہ خدا کی گرفت سے بچ کر کہاں جائیں گے ؟ اس وقت تو ان کی کوئی تدبیر فرشتوں کی مار سے ان کو نہ بچا سکے گی۔ یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جو عذاب برزخ (یعنی عذاب قبر) کی تصریح کرتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت ہی کفار و منافقین پر عذاب شروع ہوجاتا ہے، اور یہ عذاب اس سزا سے مختلف چیز ہے جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کو دی جائے گی۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النساء، آیت 97 ۔ الانعام، 93 ۔ 94 ۔ الانفال، 50 ۔ النحل، 28 ۔ 32 ۔ المومنون، 99 ۔ 100 ۔ یٰس، 26 ۔ 27 (مع حاشیہ 22 ، 23 ) المومن، 46 (مع حاشیہ۔ 63 ) ۔