تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر – آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ
گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل ہے۔ کوئی معبُود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔(1)
تشریح ( 1)
یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا ہے کہ یہ کلام جو ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ پھر پے در پے اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں
اول یہ کہ وہ ” زبردست ” ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہ اس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
دوسری صفت یہ کہ وہ ” سب کچھ جاننے والا ” ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حس و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں، اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
تیسری صفت یہ کہ وہ ” گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے “۔ یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہ اگر اب بھی وہ اس روش سے باز آجائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پاسکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتی ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف ان کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔
چوتھی صفت یہ کہ وہ ” سخت سزا دینے والا ” ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔ جب کوئی شخص یا گروہ ان تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہوسکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔
پانچویں صفت یہ کہ وہ ” صاحب فضل ” ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔
ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کردی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔