تفہیم القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر – آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
ثُمَّ اَورَثنَا الكِتبَ الَّذِينَ اصطَفَينَا مِن عِبَادِنَاۚ فَمِنهُم ظَالِمٌ لِّنَفسِهٖۚ وَمِنهُم مُّقتَصِدٌ ۚ وَمِنهُم سَابِقٌۢ بِالخَيرتِ بِاِذنِ اللّهِؕ ذلِكَ هُوَ الفَضلُ الكَبِيرُؕ
ترجمہ: پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے)اپنے بندوں میں سے چُن لیا۔ 55 اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ 56
تفسیر:سورة فَاطِر 55
مراد ہیں مسلمان جو پوری نوع انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگرچہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اسے قبول کرلیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کرلیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔
سورة فَاطِر 56
یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہوگئے ہیں
1) ۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمٌ لنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔