بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ ۛ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ
یہ اللہ کی کتاب ہے ،اس میں کوئی شک نہیں2 ہے۔ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے3 لئے (سورة الْبَقَرَة 2)
اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ” بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ مگر ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائقِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔ (سورة الْبَقَرَة 3)
یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار “ ہو۔ بَھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے۔
(تفہیم القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 2)
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ
جو غیب پر ایمان لاتے4 ہیں،نماز قائم کرتے ہیں5،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں6 (سورة الْبَقَرَة 6 – 4)
یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب “ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پاسکتا۔ Continue reading “فلاح کا قرانی تصور”